حج کے مبارک سفر کی حسین یادیں
الحمدللہ ہمارا تعلق اس مسلمان گھرانے سے ہے جس میں ہوش سنبھالتے ہی حج و عمرہ سے تعارف ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے بچپن سے ہی گھر میں اس مبارک سفر پر جاتے دیکھتے تھے اور دل میں یقین کی حد تک معلوم تھا کہ ایک دن ہم بھی اس مبارک سفر پر جائیں گے۔ وقت گزرتا گیا ہم چھوٹے سے بڑے ہو گئے اور جب تعلیم مکمل کر چکے تو پھر دل میں حج کے مبارک سفر پر جانے کے لئے سوئی ہوئی خواہش بیدار ہو گئی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے لگے کہ اپنا گھر ہمیں بھی دکھا دے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ اللہ پاک نے دعائیں قبول کر لیں اور 2012ء میں پہلی مرتبہ اللہ کے گھر کا بلاوہ آ گیا۔ اس بلاوے کی یادیں آج بھی دل و دماغ کو معطر کر دیتی ہیں۔ عازمین حج کی منیٰ میں آباد خیمہ بستی نے میرے اس مقدّس سفر کے خیالات کی بستی ایک بار پھر آباد کر دی جب ہماری فیملی نے سرکاری سکیم کے تحت حج کی درخواستیں جمع کروائیں اور بے تابی سے حج درخواستوں کی قسمت یاوری کا انتظار کرنے لگے۔ اس سال حکومت پاکستان نے "پہلے آئیے پہلے پائیے" کے اصول کو لاگو کرنا تھا۔ درخواستیں جمع تھیں اور اللہ کا مہمان بننے کی تڑپ دل میں زیادہ سے زیادہ ہوتی جا رہی تھی۔ آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جب حج کے لئے ہمارے نام بھی اللہ کی مہربانی سے منظورہو گئے۔ وہ لمحہ کیسا تھا اس کو لفظوں میں بیان کرنا یا تحریر کرنا بہت مشکل ہے۔ اللہ پاک کے حضور اکی مہربانیوں کا شکر ادا کیا اور دل کوسمجھایا کہ اللہ ہم پر راضی ہے اور اس نے ہماری بچپن کی خواہش کو پورا کر دیا۔ اگلا مرحلہ حج کی تیاریوں کا تھا۔ حفاظتی تدابیر کے حوالے سے انجکشن وغیرہ لگوائے۔ مبارک سفر کا آغاز ولیوں کی نگری ملتان سے ہوا۔ الحمدللہ اس مبارک سفر میں میرے ہمراہ میرے والد محترم، دو بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ حاجی کیمپ میں احرام وغیرہ باندھا گیا اور نفل نماز کی ادائیگی کی۔ پھر سامان پورا کرنے کے بعد ملتان ائیرپورٹ سے جہاز کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ اور دل اللہ کی تسبیح اور شکر میں مصروف ہو گیا۔ وقت مقررہ پر جہاز نے اس مقدس سفر کے لئے اڑان بھرلی جس کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں ہمیشہ موجزن رہتی ہے (جاری ہے)